کچھ مصنف کے بارے میں:
خوشونت سنگھ، پنجاب کے گائوں ہڈالی (ضلع خوشاب، پاکستان) میں 1915ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کے معروف ترین اور وسیع حلقے میں پڑھے جانے والے مصنف اور اخبار نویس تھے۔ وہ ’یوجنا‘ کے بانی ایڈیٹر اور السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، دی ہندوستان ٹائمز اور نیشنل ہیرلڈ کے ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے 1947ء میں تقسیم ہند کا بہت قریب سے معائنہ کیا تھا اور اس واقعہ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ اور مایہ ناز کتاب ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ لکھ ڈالی جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے ہندی اور اُردو ناول، شاعری اور مختصر کہانیوں کے انگریزی ترجمے بھی کیے جن میں علامہ محمد اقبال کا ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘، مرزا محمد ہادی رسوا کا ’’امرائو جان ادا‘‘ اور راجندر سنگھ بیدی کا ’’اِک چادر میلی سی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ خوشونت سنگھ 1980ء سے 1986ء تک راجیہ سبھا (بھارتی پارلیمان کا ایوان بالا) کے رکن رہے۔ انھیں 1974ء میں پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا جسے انہوں نے 1984ء میں بھارتی فوج کی جانب سے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کے خلاف احتجاجاً واپس کر دیا۔ انھیں 2007ء میں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم و بھوشن سے نوازا گیا۔ خوشونت سنگھ 2014ء میں دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی چِتا کی راکھ کا کچھ حصہ بذریعہ ریل گاڑی پاکستان لے جاکران کے آبائی علاقہ میں سپردخاک کیا گیا۔
کچھ کتاب کے بارے میں:
’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کا موضوع دورانِ تقسیم ہند و پاکستان کے فسادات ہیں۔ ناول پنجاب کے ایک گائوں منوماجرا کے گرد گھومتا ہے جس کی بیشتر آبادی سِکھ ہے اور ان کے مزارعہ مسلمان ہیں۔ سکھوں کے دل میں کوئی جذبۂ منافقت نہیں مگر کچھ اشتعال پسند انہیں زبردستی اشتعال کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو پہلے کیمپ میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے انہیں ایک ٹرین سے پاکستان لے جایا جانا ہے۔ فسادی ایک منصوبہ بناتے ہیں کہ ٹرین میں مسلمانوں کا قتل کر دیا جائے کیونکہ پاکستان سے جو ٹرینیں آتی ہیں اس میں ہندو اور سکھ کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ منصوبے کے مطابق کھمبے سے بندھے آہنی رسے کو نیچے گرایا جانا ہے جس سے ٹرین کی چھت پر بیٹھے ہوئے مسافر از خود ختم ہو جائیں گے۔ ٹرین کی رفتار میں کچھ دھیما پن آنے سے باقی مسلمانوں کو بھی ختم کر دیا جانا تھا۔ جس رات اس منصوبے پر عمل ہونا ہے اُس سے کچھ دیر پہلے دو ملزموں کو جیل سے رہا کر دیا جاتا ہے۔ ان میں ایک جگت سنگھ ہے جو دس نمبری بدمعاش ہے، اسے تھانے میں حاضری دینی پڑتی ہے۔ دوسرا اقبال سنگھ جس کے نام کی بنا پر یہ شبہ ہو گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ وہ ایم اے پاس ہے۔ حالات کی ناگواری کو دونوں محسوس کرتے ہیں۔ اقبال سنگھ ذی علم اور دانش ور ہے لیکن ضمیر کو آسودہ کرنے کے لیے وہ شراب نوشی میں مداوا ڈھونڈ لیتا ہے۔ دس نمبری جگا پھر سے جگت سنگھ بن جاتا ہے۔ اندھیرا ہونے کے بعد وہ گرنتھی سے درخواست کرتا ہے کہ اسے گوربانی سنائے۔ اس کے بعد وہ سگنل کے کھمبے پر چڑھ کر آہنی رسّے کو کاٹنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ نیچے سے گولیاں چلتی رہتی ہیں مگر مرنے سے پہلے وہ رسّے کو کاٹ دیتا ہے اور گاڑی بغیر کسی نقصان کے گزر جاتی ہے۔ ناول کے مطالعے کے بعد آپ خوشونت سنگھ کے طرزِ نگارش کی داد تو دیں گے ہی، لیکن یہ کافی نہیں۔ بہترین داد یہ ہو گی کہ ہم اپنے دل کو ٹٹولیں، کسی نہ کسی گوشے میں جگت سنگھ ضرور چھپا ہو گا، جس طرح وہ دس نمبری جگّے کے دل میں چھپا ہوا تھا۔ اگر ہمارے دلوں میں چھپا ہوا یہ جگت سنگھ بیدار ہو جائے تو موجودہ ماحول کی سب تلخیاں ازخود ختم ہو جائیں گی____ صحیفے یہی کام کرتے ہیں۔ یہ ناول بھی اس قابل ہے کہ اسے صحیفے کے طور پر پڑھا جائے۔
گوپال متل
اگر یہ ناول آج غیر شائع شدہ مسودے کے طور پر پیش کیا جائے تو مجھے کامل یقین ہے کہ آدھے درجن پبلشرز اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ایک عمدہ ناول کے طور پر اس کی لازوال خوبیاں قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں اور قاری حالات و واقعات کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے۔ کردار واضح اور قرینِ قیاس ہیں اور خوشونت سنگھ انہیں دو سطحوں پر شاندار طریقے سے آگے بڑھاتا ہے۔ کرداروں میں محبت اور انتقام کی متضاد نسبت قائم ہے۔ وہ اپنے گائوں سے بےپناہ لگائو رکھتے ہیں۔ اُن میں تخریبی اور تعمیری رجحانات بہ یک وقت موجود ہیں۔ پھر کردار دوبارہ ایک بڑے سٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں جو تقسیمِ ہند 1947ء کے طوفانی حادثات و واقعات کی صورت میں اُن کے گائوں میں سجتا ہے۔ ان کی زندگیوں میں تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ محض افسانہ نگاری کا شاہکار نہیں ہے جو فنکارانہ چابکدستی سے منصہ شہود پر لایا گیا ہے۔ ایک سماجی دستاویز کے طور پر بھی اس کی خاطرخواہ اہمیت ہے جو تشکیلِ پاکستان جیسے عظیم واقعہ کے پس منظر کی کئی تہوں کی پرت در پرت نقاب کشائی کرتا ہے۔ تاریخ دانوں، ماہرینِ عمرانیات اور انسانی امور کے عمومی شائق طلبا کے لیے بالعموم یہ نمایاں اہمیت کی حامل تحریر ہے۔ یہ ایک پنجابی مصنف نے لکھی ہے جس کے خاندان کو آبائی گھر سے در بدر ہونا پڑا۔ اس نے 1947ء میں برصغیر پاک و ہند کے شمال مغربی علاقوں میں ان خوفناک حادثات و واقعات کا دو بدو سامنا کیا۔ ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کو پڑھتے ہوئے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وقت کے بہائو سے اس عمدہ ناول کی تازگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ افسانہ و ناول پڑھنے کے شائق آج بھی اس سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کی شناخت ایک شاہکار (کلاسیک) کے طور پر کی جائے۔
آرتھر لعل
Reviews
There are no reviews yet.